کھیل سب آنکھوں کا ہے سارا ہنر آنکھوں کا ہے
پھر بھی دنیا میں خسارہ سر بسر آنکھوں کا ہے
ہم نہ دیکھیں گے تو یہ منظر بدل جائیں گے کیا
دیکھنا ٹھہرا تو کیا نفع و ضرر آنکھوں کا ہے
سوچنا کیا ہے ابھی کار نظر کا ماحصل
ہم تو یوں خوش ہیں کہ آغاز سفر آنکھوں کا ہے
رفتہ رفتہ سارے چہرے درمیاں سے ہٹ گئے
ایک رشتہ آج بھی باقی مگر آنکھوں کا ہے
راستہ کیا کیا چراغوں کی طرح تکتے تھے لوگ
سلسلہ آنکھوں میں تا حد نظر آنکھوں کا ہے
تھک چکے دونوں تماشہ گاہ عالم دیکھ کر
آؤ سو جائیں کہ ان آنکھوں میں گھر آنکھوں کا ہے
غزل
کھیل سب آنکھوں کا ہے سارا ہنر آنکھوں کا ہے
عرفانؔ صدیقی