EN हिंदी
خزانے بھی ملیں اس کے عوض تو ہم نہ بیچیں گے | شیح شیری
KHazane bhi milen is ke ewaz to hum na bechenge

غزل

خزانے بھی ملیں اس کے عوض تو ہم نہ بیچیں گے

اویس احمد دوراں

;

خزانے بھی ملیں اس کے عوض تو ہم نہ بیچیں گے
ہمارا غم ہے مظلوموں کا غم یہ غم نہ بیچیں گے

کہستانوں سے پتھر کاٹ کر لائیں گے ہم لیکن
کسی ظالم کے ہاتھوں زخم کا مرہم نہ بیچیں گے

بلا سے دھول پھانکیں یا پرانے چیتھڑے پہنیں
مگر یارو متاع علم و دانش ہم نہ بیچیں گے

کسی دربار میں جا کر ادب اور فن کی صورت میں
تمہاری عنبریں زلفوں کے پیچ و خم نہ بیچیں گے

ہمارا انقلاب آئے گا جب تو کام آئے گا
ابھی اپنی تمنا کا اجالا ہم نہ بیچیں گے

گلستاں بیچ کر کھانا ہوس کاروں کا شیوہ ہے
چمن والو پپیہوں کا ترنم ہم نہ بیچیں گے

بھری محفل میں دوراںؔ آج ہم پھر عہد کرتے ہیں
جو ہے انسانیت کی آس وہ پرچم نہ بیچیں گے