EN हिंदी
خیال و خواب سے گھر کب تلک سجائیں ہم | شیح شیری
KHayal-o-KHwab se ghar kab talak sajaen hum

غزل

خیال و خواب سے گھر کب تلک سجائیں ہم

احمد ہمدانی

;

خیال و خواب سے گھر کب تلک سجائیں ہم
ہے جی میں اب تو کہ جی خود سے بھی اٹھائیں ہم

عجیب وحشتیں حصے میں اپنے آئی ہیں
کہ تیرے گھر بھی پہنچ کر سکوں نہ پائیں ہم

انیس جاں تو ہیں یہ خوش قداں چنار مگر
ادائیں تیری انہیں کس طرح سکھائیں ہم

وہ گھر تو جل بھی چکا جس میں تم ہی تم تھے کبھی
اب اس کی راکھ سے دنیا نئی بسائیں ہم

سنا رہے ہیں دکھوں کی کہانیاں کب سے
بس اب تو دھیان کی ندی میں ڈوب جائیں ہم

ہر ایک سمت پہاڑوں کا سلسلہ ہے یہاں
ہمارا حال ہے کیا یہ کسے سنائیں ہم