خیال و خواب میں کب تک یہ گفتگو ہوگی
اٹھاؤ جام کہ اب بات رو بہ رو ہوگی
ابھی ہوں پاس تو وہ اجنبی سے بیٹھے ہیں
میں اٹھ گیا تو بہت میری جستجو ہوگی
مجھے بتاؤ تو کچھ کام آ سکوں شاید
تمہارے دل میں بھی اک فصل آرزو ہوگی
تجھی کو ڈھونڈھتا پھرتا تھا در بہ در پھر بھی
مجھے یقین تھا رسوائی کو بہ کو ہوگی
بدل گیا بھی اگر وہ تو دیکھنے میں نعیمؔ
وہی لباس وہی شکل ہو بہ ہو ہوگی
غزل
خیال و خواب میں کب تک یہ گفتگو ہوگی
حسن نعیم