خیال میں اک نہ اک مزے کی نئی کہانی ہے اور ہم ہیں
ابھی تمنا ہے اور دل ہے ابھی جوانی ہے اور ہم ہیں
غریق بحر ستم نہ کیوں ہوں یہ جاں فشانی ہے اور ہم ہیں
کہ آپ ہیں آپ کی چھری ہے چھری کا پانی ہے اور ہم ہیں
دم اخیر اس کو اب نہ سوچیں یہ سوچنا چاہئے تھا پہلے
مآل کیا ہوگا زندگی کا جہان فانی ہے اور ہم ہیں
یہ عشق پر حسن کی عنایت یہ حسن سے عشق کی ارادت
ہماری حسرت ہے اور تو ہے تری جوانی ہے اور ہم ہیں
نگاہ الفت بھی ہو چلی کچھ ستم بھی کرنے لگا وہ ظالم
اگر یہی مہربانیاں ہیں تو کامرانی ہے اور ہم ہیں
ادا نے چھیڑا نظر نے تاکا ستم نے لوٹا غضب نے مارا
زبان جب سے کھلی ہماری یہی کہانی ہے اور ہم ہیں
بقا کا چرچا جہان بھر میں مگر بقا سے جہان خالی
خیال عیش مدام کیسا جہان فانی ہے اور ہم ہیں
ابھی سے توبہ ابھی سے تقویٰ ابھی سے کیا فکر دین و عقبیٰ
نئی امنگیں نئی ترنگیں نئی جوانی ہے اور ہم ہیں
پہنچ پہنچ کر فلک پر آہیں کریں نہ انجم میں کیوں اضافہ
کہ شام سے صبح تک شب غم شرر فشانی ہے اور ہم ہیں
کسے توقع نہ آئیں گے وہ یقیں کسے تھا بلائیں گے وہ
یہ خاص ان کی ہے مہربانی کہ مہربانی ہے اور ہم ہیں
اٹھا ہی دیں گے نقاب اپنی دکھا ہی دیں گے وہ اپنا جلوہ
نبھے گی کب تک یہ لن ترانی یہ لن ترانی ہے اور ہم ہیں
بھرے ہوئے چشم تر میں آنسو جگر میں بھڑکی ہوئی تپ غم
یہ آگ ہے اور یہ ہے پانی یہ آگ پانی ہے اور ہم ہیں
فغاں تو آخر فغاں ہی ٹھہری گلہ تو آخر گلہ ہی ٹھہرا
محال ہے جس میں سانس لینی وہ ناتوانی ہے اور ہم ہیں
نئے شگوفے نہ کیوں کھلائیں جو غنچہ و گل کو دیکھ پائیں
بہار تو ہے چمن کی رانی چمن کی رانی ہے اور ہم ہیں
کبھی تو ہم ہیں یہاں وہاں کے کبھی تصور ادھر ادھر کا
سکون و راحت سے کیا تعلق کہ بد گمانی ہے اور ہم ہیں
جتا چکے درد دل کو اپنے جو اب جتائیں تو کیا جتائیں
کہی ہوئی بھی سنی ہوئی بھی وہی کہانی ہے اور ہم ہیں
بہت سے الفت میں آئے طوفاں رہا کئے نوحؔ بھی پریشاں
مگر وہی پیہم آنسوؤں کی ابھی روانی ہے اور ہم ہیں
غزل
خیال میں اک نہ اک مزے کی نئی کہانی ہے اور ہم ہیں
نوح ناروی