خیال کو ضو نظر کو تابش نفس کو رخشندگی ملے گی
بھڑک اٹھا سوز غم جو دل میں تو ہر کہیں روشنی ملے گی
خلش کی تہہ میں سکوں ملے گا الم کی تہہ میں خوشی ملے گی
بغور دیکھو تو موت میں بھی تمہیں نئی زندگی ملے گی
مقام انساں مقام یزداں میں فاصلہ ہے بس اک قدم کا
جہاں ملے گی خودی کی سرحد وہیں حد بے خودی ملے گی
یہ ذوق سجدہ شکست خوردہ طبیعتوں کی ہے خود فریبی
بشر کی تسلیم کی تہوں میں بشر کی کم ہمتی ملے گی
نگاہ جتنی بلندی ہوگی یہ اتنی ہی ارجمند ہوگی
بقدر قرب فلک کرن میں حرارت و روشنی ملے گی
ہے خود شناسی جہاں شناسی جہاں شناسی خدا شناسی
ملی جو تجھ کو خودی کی دولت تو دولت سرمدی ملے گی
اگر ہے تیری نگاہ بالغ اگر ہے تیرا شعور پختہ
تو جہل کی ظلمتوں ہی سے تجھ کو مشعل آگہی ملے گی
غم و مسرت ملیں گے باہم تو زندگی بھی چمک اٹھے گی
یہ رو ہے منفی یہ رو ہے مثبت ملے گی یہ روشنی ملے گی
رہ طلب کے سفر میں رعناؔ سکوں ہے خواب و خیال یکسر
قدم قدم ٹھوکریں لگیں گی نفس نفس برہمی ملے گی
غزل
خیال کو ضو نظر کو تابش نفس کو رخشندگی ملے گی
برج لال رعنا