خیال ذہن شکن سے زبان بھر آ جائے
یہ ہو تو ہاتھ مرے کوئی شعر تر آ جائے
ہمارے مٹنے سے دنیا ہوئی ہے ایسی نہاں
کہ جیسے بیج سے باہر کوئی شجر آ جائے
بنائی میں نے جو بے صورتی کے پتھر سے
میں کیا کروں اسی مورت پہ دل اگر آ جائے
چمن تمام تو آہٹ پہ اس کی جھوم اٹھا
یہاں یہ خبط وہ سیل ہوا نظر آ جائے
بھنور مصر ہے کہ آغوش تنگ میں دریا
تمام وسعت نخوت سمیٹ کر آ جائے
کشش بھی اس کی غضب رعب حسن بھی ایسا
کہ سامنا ہی نہ کر پاؤں وہ اگر آ جائے
رہو گے پھر بھی محبؔ سطح بحر ہی سے دو چار
اگر تمہارے لیے تہہ بھی سطح پر آ جائے

غزل
خیال ذہن شکن سے زبان بھر آ جائے
محب عارفی