خیال ترک تعلق کو ٹالتے رہیے
ہوا میں کوئی ہیولیٰ اچھالتے رہئے
پرانے آشنا چہروں کو یاد کر کر کے
ہجوم غم میں بھی دل کو سنبھالتے رہئے
تمام عمر یوں ہی کیجے حسرتوں کا شمار
تمام عمر یوں ہی دکھ سنبھالتے رہئے
سجا کے روز نئی محفلیں نئے چہرے
زر فسردہ دلی کو اجالتے رہئے
رہیں نہ دشت جو صحرا نوردیوں کے لئے
تو اپنے صحن میں پتھر اچھالتے رہئے
نہ مل سکیں جو وہ یاران گل صفت ناہیدؔ
تو اپنے آپ کو سانچوں میں ڈھالتے رہئے

غزل
خیال ترک تعلق کو ٹالتے رہیے
کشور ناہید