خیال ناوک مژگاں میں بس ہم سر پٹکتے ہیں
ہمارے دل میں مدت سے یہ خار غم کھٹکتے ہیں
رخ روشن پہ اس کی گیسوئے شب گوں لٹکتے ہیں
قیامت ہے مسافر راستہ دن کو بھٹکتے ہیں
فغاں کرتی ہے بلبل یاد میں گر گل کے اے گلچیں
صدا اک آہ کی آتی ہے جب غنچے چٹکتے ہیں
رہا کرتا نہیں صیاد ہم کو موسم گل میں
قفس میں دم جو گھبراتا ہے سر دے دے پٹکتے ہیں
اڑا دوں گا رساؔ میں دھجیاں دامان صحرا کی
عبث خار بیاباں میرے دامن سے اٹکتے ہیں
غزل
خیال ناوک مژگاں میں بس ہم سر پٹکتے ہیں
بھارتیندو ہریش چندر