خیال مرگ بڑی شے ہے زندگی کے لئے
اندھیرا جیسے ضروری ہے روشنی کے لئے
سکوں کی بھیک نہ مانگیں گے چشم لطف سے ہم
گدا بنیں گے نہ دو دن کی زندگی کے لئے
جنوں نے راز حقیقت تو پا لیا لیکن
خدا کو کھو دیا ذوق خود آگہی کے لئے
بجا کہ راہنما راہزن نہیں لیکن
مسافر اب بھی ترستے ہیں رہروی کے لئے
جو تیری چشم توجہ پہ ہو گیا قرباں
وہ غم بھی کتنا ضروری تھا زندگی کے لئے
یہ دل غموں سے ہے معمور اے خیال نشاط
کہاں سے آئیں گی گنجائشیں خوشی کے لئے
سہیں گے غم کے لئے جبر زندگی لیکن
نظر نہ غم سے بچائیں گے زندگی کے لئے
خلوص دل کے تجسس میں کھوئے ہم مختارؔ
نظر پڑی بھی تو دشمن پہ دوستی کے لئے
غزل
خیال مرگ بڑی شے ہے زندگی کے لئے
مختار ہاشمی