خوف کی ایسی نہ بیماری لگے
سچ وہ بولے تو اداکاری لگے
صاحبوں سے ہر اجازت لو مگر
مسکرانا بھی نہ سرکاری لگے
سب میاں حالات پر موقوف ہے
پھول بھی تلوار سے بھاری لگے
اے فرشتو سر نہ ڈھلکانا مرا
موت بھی آئے تو سرداری لگے
بھاڑ میں جائے یہ تہذیب کلام
بات کہنے میں بھی دشواری لگے
وہ غزل آباد میں رہتا ہے نور
کیوں نہ اس کا ہر سخن کاری لگے
غزل
خوف کی ایسی نہ بیماری لگے
نور تقی نور