خوف کا طاری سلسلہ کیا ہے
ہر سو وحشت ہے یہ ہوا کیا ہے
روح زخمی ہماری سب کی ہے
مل کے سوچیں کہ اب دوا کیا ہے
قلزم خوں نہ از ازل ٹھہری
اس ذہانت کا فائدہ کیا ہے
ہر طرف شور ان سوالوں کا
کون ہے تو ترا پتہ کیا ہے
غیر کے گھر لگی تو چپ ہے تو
رک کہ تیرا ابھی جلا کیا ہے
کیوں بھٹکتی ہیں سڑکوں پے روحیں
مر کے جینے کی یہ سزا کیا ہے
اک خلش سی ہوا میں ہے شاید
سانس مشکل سا ہو گیا کیا ہے
تو بھی انسان میں بھی انساں ہی
اب یہ انسانیت بتا کیا ہے
جیتے ہو لاش پر کسی کی تم
کل وہ جیتے گا تو برا کیا ہے
درد تیرا مرا نہ ہو یکساں
درد ہی ہے علاحدہ کیا ہے
غزل
خوف کا طاری سلسلہ کیا ہے
دناکشی سحر