EN हिंदी
ختم راتوں رات اس گل کی کہانی ہو گئی | شیح شیری
KHatm raaton-raat us gul ki kahani ho gai

غزل

ختم راتوں رات اس گل کی کہانی ہو گئی

اقبال ساجد

;

ختم راتوں رات اس گل کی کہانی ہو گئی
رنگ بوسیدہ ہوئے خوشبو پرانی ہو گئی

جس سے روشن تھا مقدر وہ ستارہ کھو گیا
ظلمتوں کی نذر آخر زندگانی ہو گئی

کل اجالوں کے نگر میں حادثہ ایسا ہوا
چڑھتے سورج پر دیئے کی حکمرانی ہو گئی

رہ گئی تھی لعل بننے میں کمی اک آنچ کی
آنکھ سے گر کر لہو کی بوند پانی ہو گئی

چلۂ جاں پر چڑھا کر آخری سانسوں کے تیر
موت کی سرحد میں داخل زندگانی ہو گئی

خوف اب آتا نہیں ہے سیپیاں چنتے ہوئے
دوستی اپنی سمندر سے پرانی ہو گئی

کس جگہ آیا ہے تو آنکھوں کے نیلم بھول کر
غم کہاں اقبال ساجدؔ کی نشانی ہو گئی