ختم کیا صبا نے رقص گل پہ نثار ہو چکی
جوش نشاط ہو چکا صوت ہزار ہو چکی
رنگ بنفشہ مٹ گیا سنبل تر نہیں رہا
صحن چمن میں زینت نقش و نگار ہو چکی
مستی لالہ اب کہاں اس کا پیالہ اب کہاں
دور طرب گزر گیا آمد یار ہو چکی
رت وہ جو تھی بدل گئی آئی بس اور نکل گئی
تھی جو ہوا میں نکہت مشک تتار ہو چکی
اب تک اسی روش پہ ہے اکبرؔ مست و بے خبر
کہہ دے کوئی عزیز من فصل بہار ہو چکی
غزل
ختم کیا صبا نے رقص گل پہ نثار ہو چکی
اکبر الہ آبادی