EN हिंदी
ختم ہو جنگ خرابے پہ حکومت کی جائے | شیح شیری
KHatm ho jang KHarabe pe hukumat ki jae

غزل

ختم ہو جنگ خرابے پہ حکومت کی جائے

عرفانؔ صدیقی

;

ختم ہو جنگ خرابے پہ حکومت کی جائے
آخری معرکۂ صبر ہے عجلت کی جائے

ہم نہ زنجیر کے قابل ہیں نہ جاگیر کے اہل
ہم سے انکار کیا جائے نہ بیعت کی جائے

مملکت اور کوئی بعد میں ارزانی ہو
پہلے میری ہی زمیں مجھ کو عنایت کی جائے

یا کیا جائے مجھے خوش نظری سے آزاد
یا اسی دشت میں پیدا کوئی صورت کی جائے

ہم عبث دیکھتے ہیں غرفۂ خالی کی طرف
یہ بھی کیا کوئی تماشا ہے کہ حیرت کی جائے

گھر بھی رہیے تو چلے آتے ہیں ملنے کو غزال
کاہے کو بادیہ پیمائی کی زحمت کی جائے

اپنی تحریر تو جو کچھ ہے سو آئینہ ہے
رمز تحریر مگر کیسے حکایت کی جائے