EN हिंदी
خط کی رخسار پر سیاہی ہے | شیح شیری
KHat ki ruKHsar par syahi hai

غزل

خط کی رخسار پر سیاہی ہے

کشن کمار وقار

;

خط کی رخسار پر سیاہی ہے
چشم خوابیدہ خوش نگاہی ہے

عشق کا ہے غبار نالہ‌ عروج
آسماں اوج‌ تخت شاہی ہے

کیوں نہ ہو عندلیب گرم فغاں
بوئے گل ہر طرف کو راہی ہے

اشک حسرت ہے آج طوفاں خیز
کشتیٔ چشم کی تباہی ہے

ہوں گرفتار آپ اپنا میں
حلقۂ فلس دام ماہی ہے

چشم جاناں کا رعب ابرو ہے
تیغ سے صولت سپاہی ہے

مرگ میرا ہے ضبط گریہ وقارؔ
آب آب حیات ماہی ہے