خط بہت اس کے پڑھے ہیں کبھی دیکھا نہیں ہے
کیا مرے پردہ نشیں کا کوئی چہرا نہیں ہے
شہر اتنا بھی نہ کر ظلم کہ ضد پر آ جاؤں
میرا صحرا سے تعلق ابھی ٹوٹا نہیں ہے
کیا دکھاتا ہے مرے نام پہ آئینۂ شہر
مدتوں سے مرا اپنا کوئی چہرہ نہیں ہے
جسم کی پیاس کو حوروں کی بشارت پے نہ ٹال
یہ ہمارا دل سادہ کوئی بچہ نہیں ہے
کچھ نہیں تشنگئ دیدۂ بینا کا علاج
خواب تک میں بھی کوئی صورت دریا نہیں ہے
کب مجھے تجھ سے محبت ہے عروس دنیا
ازدواجی سا یہ رشتہ کوئی رشتہ نہیں ہے
فرحتؔ احساس نیا چاہیے اس کو ہر رات
مگر افسوس کہ اس سا کوئی پیدا نہیں ہے
غزل
خط بہت اس کے پڑھے ہیں کبھی دیکھا نہیں ہے
فرحت احساس