خط بڑھا کاکل بڑھے زلفیں بڑھیں گیسو بڑھے
حسن کی سرکار میں جتنے بڑھے ہندو بڑھے
بعد رنجش کے گلے ملتے ہوئے رکتا ہے جی
اب مناسب ہے یہی کچھ میں بڑھوں کچھ تو بڑھے
بڑھتے بڑھتے بڑھ گئی وحشت وگرنہ پہلے تو
ہاتھ کے ناخن بڑھے سر کے ہمارے مو بڑھے
تجھ کو دشمن واں شرارت سے جو بھڑکاتے ہے روز
چاہتے ہیں اور شر اے شوخ آتش خو بڑھے
کچھ تپ غم کو گھٹا کیا فائدہ اس سے طبیب
روز نسخے میں اگر خرفہ گھٹے کاہو بڑھے
پیشوائی کو غم جاناں کی چشم دل سے ذوقؔ
جب بڑھے نالہ تو اس سے بیشتر آنسو بڑھے
غزل
خط بڑھا کاکل بڑھے زلفیں بڑھیں گیسو بڑھے
شیخ ابراہیم ذوقؔ