خسارے میں رہے لیکن نہ چھوڑی سادگی ہم نے
بہ ہر صورت نبھائی دشمنوں سے دوستی ہم نے
سلف تھے جو ہمارے مثل خورشید و مہہ و انجم
انہی کے راستے پہ چل کے پائی روشنی ہم نے
ادب کے دائرے کو دے دی وسعت سارے عالم کی
کہ اس کی آبیاری کی برائے زندگی ہم نے
جہاں والو نہ مانو تم مگر سچ ہے کہ دنیا میں
بڑھایا ہے تہ خنجر وقار عاشقی ہم نے
یہاں سچ بولنے پر زہر کا پیالہ ہی ملتا ہے
عجب رسم ستم دیکھی ہے تیرے شہر کی ہم نے
وسائل جب کہ سارے ہو چکے تھے بے اثر انجمؔ
چراغ دل جلا کر دور کی ہے تیرگی ہم نے

غزل
خسارے میں رہے لیکن نہ چھوڑی سادگی ہم نے
غیاث انجم