خسارہ در خسارہ کر لیا جائے
جنوں کو استعارہ کر لیا جائے
یہ نقطہ بھی قرین مصلحت ہے
عداوت کو گوارہ کر لیا جائے
درون دل یم افسردگی ہے
کوئی تنکا سہارا کر لیا جائے
سخن ہائے برائے گفتنی سے
غزل کو شاہپارہ کر لیا جائے
سر آب رواں صحرا بچھا کر
سرابوں سے کنارہ کر لیا جائے
ضیا آنکھوں کی پتلی میں سمو کر
اندھیرے کا نظارہ کر لیا جائے
بھلا کیا کھیل ہے کار محبت
جو دانستہ دوبارہ کر لیا جائے
یہ دل میں ہے کہ سارے اشک پی کر
بدن کو مٹی گارا کر کیا جائے
بسانی ہے کوئی بستی کہ صحرا
علیؔ اب استخارہ کر لیا جائے

غزل
خسارہ در خسارہ کر لیا جائے
علی مزمل