EN हिंदी
خراب و خستہ سہی سائباں بنایا ہے | شیح شیری
KHarab-o-KHasta sahi saeban banaya hai

غزل

خراب و خستہ سہی سائباں بنایا ہے

محمد علی منظر

;

خراب و خستہ سہی سائباں بنایا ہے
مضاف شہر میں ہم نے مکاں بنایا ہے

کبھی رہا ہی نہیں موسموں سے پیوستہ
نئے مزاج کا اک گلستاں بنایا ہے

کسی کے واسطے فردوس ہے یہ سیارہ
ہمارے واسطے آزار جاں بنایا ہے

حدود وقت میں محدود کر کے انساں کو
خود اپنے واسطے کیوں لا مکاں بنایا ہے

گر اختلاف تھا منظرؔ تو بھی بیاں کرتے
ذرا سی بات کو کیوں داستاں بنایا ہے