EN हिंदी
خراب و خستہ ہوئے خاک میں شباب ملا | شیح شیری
KHarab-o-KHasta hue KHak mein shabab mila

غزل

خراب و خستہ ہوئے خاک میں شباب ملا

حفیظ جونپوری

;

خراب و خستہ ہوئے خاک میں شباب ملا
ہمیں یہ دل نہ ملا جان کا عذاب ملا

کسی کی یاد میں بے شبہ بے قرار ہے تو
کہ آج ہے تری شوخی میں اضطراب ملا

شراب پی تو گنہ گار میں ہوا واعظ
برائی کی جو مری تجھ کو کیا ثواب ملا

ملے وہ عیش گزشتہ بھی اے خدا مجھ کو
بہشت میں جو دوبارہ مجھے شباب ملا

بڑی کریم ہے پیر مغاں کی بھی سرکار
کہ جب ملا مجھے ساغر علی الحساب ملا

کچھ آرزو نہ رہی ترک آرزو کے سوا
مرے سوال کا ایسا مجھے جواب ملا

گیا جو دل تو ملا داغ آرزو مجھ کو
اک آفتاب جو کھویا اک آفتاب ملا

حفیظؔ تم کو وہ ناکام وصل کہتے ہیں
برا نہ مانو یہ اچھا تمہیں خطاب ملا