کھنڈر یہ پھر بسانے کا ارادہ ہی نہیں تھا
بدن میں لوٹ آنے کا ارادہ ہی نہیں تھا
شکم کی آگ نے بیلوں کو ہانکنا سکھایا
وگرنہ ہل چلانے کا ارادہ ہی نہیں تھا
وہ اپنے بھیڑیوں کو سیر پر لایا تھا بن میں
غزالوں کو ڈرانے کا ارادہ ہی نہیں تھا
کہا تھا طائروں سے پیڑ کو دیمک لگی ہے
کسی کو آزمانے کا ارادہ ہی نہیں تھا
خبر کب تھی کہ آنکھیں اوس برسانے لگیں گی
تجھے ورنہ جگانے کا ارادہ ہی نہیں تھا
میں تیرے ساتھ اڑتا پھر رہا تھا آسماں میں
خدا کو بھول جانے کا ارادہ ہی نہیں تھا
صدی میں نے تمناؤں کو بال و پر دیے تھے
مگر ان کو اڑانے کا ارادہ ہی نہیں تھا
غزل
کھنڈر یہ پھر بسانے کا ارادہ ہی نہیں تھا
دانیال طریر