خموشی ساز ہوتی جا رہی ہے
نظر آواز ہوتی جا رہی ہے
نظر تیری جو اک دل کی کرن تھی
زمانہ ساز ہوتی جا رہی ہے
نہیں آتا سمجھ میں شور ہستی
بس اک آواز ہوتی جا رہی ہے
خموشی جو کبھی تھی پردۂ غم
یہی غماز ہوتی جا رہی ہے
بدی کے سامنے نیکی ابھی تک
سپر انداز ہوتی جا رہی ہے
غزل ملاؔ ترے سحر بیاں سے
عجب اعجاز ہوتی جا رہی ہے
غزل
خموشی ساز ہوتی جا رہی ہے
آنند نرائن ملا