EN हिंदी
خموشی ساز ہوتی جا رہی ہے | شیح شیری
KHamoshi saz hoti ja rahi hai

غزل

خموشی ساز ہوتی جا رہی ہے

آنند نرائن ملا

;

خموشی ساز ہوتی جا رہی ہے
نظر آواز ہوتی جا رہی ہے

نظر تیری جو اک دل کی کرن تھی
زمانہ ساز ہوتی جا رہی ہے

نہیں آتا سمجھ میں شور ہستی
بس اک آواز ہوتی جا رہی ہے

خموشی جو کبھی تھی پردۂ غم
یہی غماز ہوتی جا رہی ہے

بدی کے سامنے نیکی ابھی تک
سپر انداز ہوتی جا رہی ہے

غزل ملاؔ ترے سحر بیاں سے
عجب اعجاز ہوتی جا رہی ہے