خموشی میں چھپے لفظوں کے حلیے یاد آئیں گے
تری آنکھوں کے بے آواز لہجے یاد آئیں گے
تصور ٹھوکریں کھاتے ہوئے قدموں سے الجھے گا
ابھرتی ڈوبتی منزل کے رستے یاد آئیں گے
مجھے معلوم ہے دم توڑ دے گی آگہی میری
جو لمحے بھولنے کے ہیں وہ لمحے یاد آئیں گے
کبھی اپنے اکیلے پن کے بارے میں جو سوچو گے
تمہیں ٹوٹے ہوئے کچھ خاص رشتے یاد آئیں گے
کچھ ایسا ہو کہ تصویروں میں جل جائے تصور بھی
محبت یاد آئے گی تو شکوے یاد آئیں گے
جو تیرا جسم چھو کر میری سانسوں میں سماتے تھے
ہر آہٹ پر وہی خوشبو کے جھونکے یاد آئیں گے
بھلے اوراق ماضی چاٹ جائے وقت کی دیمک
جو قصے یاد آنے ہیں وہ قصے یاد آئیں گے
جہاں تم سے بچھڑنے کا سبب آنکھیں بھگوئیں گے
وہیں اپنی محبت کے وسیلے یاد آئیں گے
سلیمؔ آخر گئے وقتوں کی قبریں کھودیے کیوں کر
دل معصوم کو اپنے کھلونے یاد آئیں گے

غزل
خموشی میں چھپے لفظوں کے حلیے یاد آئیں گے
سردار سلیم