خموشی کی گرہ کھولے سر آواز تک آئے
اشارہ کوئی تو سمجھے کوئی تو راز تک آئے
کوئی انجام کب سے منتظر ہے اک حاضر کا
کوئی رخت سفر باندھے کوئی آغاز تک آئے
زمین دل یہ جم جانے سے کچھ حاصل نہیں ہوگا
غبار شوق سے کہہ دو ذرا پرواز تک آئے
کوئی محفل بڑی خاموش ہے یادوں سے پھر کہہ دو
رباب جاں کوئی چھیڑے کوئی دم ساز تک آئے
کسی کے نام کر ڈالا تھا خوابوں کے جزیرے کو
سفینے ان گنت ورنہ نگاہ ناز تک آئے
غزل
خموشی کی گرہ کھولے سر آواز تک آئے
مظفر ابدالی