خموش جادۂ انکار بھی ہے صحرا بھی
عزا میں پائے جنوں بار بھی ہے صحرا بھی
کہیں بھی جائیں لہو کو تو صرف ہونا ہے
کہ تشنہ کوچۂ دل دار بھی ہے صحرا بھی
متاع زیست خریدیں کہ تیری سمت بڑھیں
ہمارے سامنے بازار بھی ہے صحرا بھی
مجھے تو ساری حدوں سے گریز کرنا ہے
مرا حریف تو گھر بار بھی ہے صحرا بھی
یہیں یہ دھول یہیں خوشبوئیں بھی اڑتی ہیں
یہ دل کہ خطۂ گلزار بھی ہے صحرا بھی
نہ چھوڑتا ہے نہ زنجیر کر کے رکھتا ہے
ترا خیال کہ دیوار بھی ہے صحرا بھی
یہ کیا جگہ ہے جہاں دونوں وقت ملتے ہیں
یہاں درخت ثمر بار بھی ہے صحرا بھی
ذرا سی چوک سے پانسہ پلٹ بھی سکتا ہے
کہ عقل شہر فسوں کار بھی ہے صحرا بھی
غزل
خموش جادۂ انکار بھی ہے صحرا بھی
ارشد عبد الحمید