خموش اس لئے ہم ہیں کہ بات گھر کی ہے
ابھی یہ دیکھ رہے ہیں ہوا کدھر کی ہے
بجھے چراغ تو احساس کرب جاگ اٹھا
نہ جانے کیسے پرندوں نے شب بسر کی ہے
ہمارے بچوں کے دل میں سلگ رہے ہیں الاؤ
یہ آگ بجھ نہیں پائے گی عمر بھر کی ہے
نہا اٹھیں گے ابھی لوگ بے سبب خوں میں
یہ جنگ صرف ہمارے ہی ایک سر کی ہے
نہ تم کہو گے تو خنجر پکار اٹھے گا
لہو میں کس کے یہ پھر آستین تر کی ہے
برہنہ کانٹوں پہ بستر بچھا دیا میں نے
تو بھول جا کہ مری آرزو سفر کی ہے
پناہ دھوپ سے احسنؔ جو دے سکے سب کو
ضرورت آج یہاں ایسے اک شجر کی ہے
غزل
خموش اس لئے ہم ہیں کہ بات گھر کی ہے
نواب احسن