خلوت میں خیالوں کی یہ انجمن آرائی
آباد ہے اب کتنا ویرانۂ تنہائی
ایسے بھی مراحل کچھ آئے رہ ہستی میں
محسوس ہوا منزل خود پاس چلی آئی
تو شمع مسرت ہے غم خانۂ امکاں میں
دم سے ترے قائم ہے ہر بزم کی رعنائی
ہے یاد تری کیا کیا مائل بہ کرم مجھ پر
گزرے ہوئے لمحوں کو جو ساتھ لیے آئی
پگھلے ہوئے سونے سے ابھریں کئی تصویریں
دریا کے کناروں پر جب دھوپ اتر آئی
اس گلشن ہستی کا ہر رنگ نرالا ہے
جب رونے لگی شبنم پھولوں کو ہنسی آئی

غزل
خلوت میں خیالوں کی یہ انجمن آرائی
کرشن مراری