خلش ہو جس میں وہ ارماں تلاش کرتا ہوں
نہ نکلے دل سے جو پیکاں تلاش کرتا ہوں
کسی کی کاکل پیچاں تلاش کرتا ہوں
چمن میں سنبل و ریحاں تلاش کرتا ہوں
نہ جس میں دور خزاں ہو نہ آشیانہ جلے
میں کوئی ایسا گلستاں تلاش کرتا ہوں
خلاف وضع ہے حد جنوں سے بڑھ جانا
طریق چاک گریباں تلاش کرتا ہوں
میں اس تلاش کے قرباں فسانۂ دل کو
میں روز اک نیا عنواں تلاش کرتا ہوں
نہ کوئی شمع ہے روشن نہ رقص پروانہ
سکون گور غریباں تلاش کرتا ہوں
جو حادثات کی آندھی میں بھی رہے روشن
میں ایسی شمع فروزاں تلاش کرتا ہوں
کبھی کلیم نے دیکھا تھا طور پر جلوہ
وہی میں جلوۂ جاناں تلاش کرتا ہوں
وہ شہ رگ سے بھی نزدیک شمسؔ رہتا ہے
جسے بہ کوہ و بیاباں تلاش کرتا ہوں
غزل
خلش ہو جس میں وہ ارماں تلاش کرتا ہوں
شمس اٹاوی