EN हिंदी
خلا میں تیر رہا ہے سوال دنیا کا | شیح شیری
KHala mein tair raha hai sawal duniya ka

غزل

خلا میں تیر رہا ہے سوال دنیا کا

خورشید اکبر

;

خلا میں تیر رہا ہے سوال دنیا کا
خدا کو آئے گا کس دن خیال دنیا کا

یہ اور بات کہ جنت یقیں سے آگے تھی
وہاں بھی ساتھ گیا احتمال دنیا کا

ہمارے نامۂ اعمال میں لکھا اس نے
عروج آدم خاکی زوال دنیا کا

یہ واقعہ ہے کہ انسان مر گیا پہلے
پھر اس کے بعد ہوا انتقال دنیا کا

کوئی خبر نہیں کس وقت اور کہاں گر جائے
خدا کے ہاتھ سے جام سفال دنیا کا

ہزار میل کو دھویا ہزار صابن سے
کسی طرح بھی نہ چھوٹا خیال دنیا کا

عجیب رنگ کا پنجرہ ہے آسماں نیچے
طلسم غیب ہے خورشیدؔ حال دنیا کا