خلا کے دشت میں یہ طرفہ ماجرا بھی ہے
وہ آسمان جو سر پر تھا زیر پا بھی ہے
ہوا کے دوش پہ اک سرمئی لکیر کے ساتھ
مری تلاش میں شاید مری صدا بھی ہے
ڈرا ہوں یوں کبھی تنہائیوں کی آہٹ سے
کہ جیسے مجھ میں کوئی شے مرے سوا بھی ہے
بہت عزیز ہے مجھ کو یہ برگ نو جس میں
زمیں کا حسن بھی ہے شوخیٔ صبا بھی ہے
مری جفا طلبی کا خیال ہے اس کو
وگرنہ پیار کا انداز دوسرا بھی ہے
رگ حیات میں رقصاں مری توانائی
میں کیسے مان لوں میرے لیے فنا بھی ہے
غزل
خلا کے دشت میں یہ طرفہ ماجرا بھی ہے
حسن اختر جلیل