خفا مت ہو مجھ کو ٹھکانے بہت ہیں
مرا سر رہے آستانہ بہت ہیں
بہت دور ہے اپنے نزدیک تو بھی
تجھے یاد کافر بہانے بہت ہیں
بہانے نہ کر مجھ سے اے چشم گریاں
ابھی اشک مجھ کو بہانے بہت ہیں
مرے چشم و دل اور جگر سب ہیں حاضر
تو خاطر نشاں رکھ نشانے بہت ہیں
کشش دل کی ہی کام کرتی ہے ورنہ
فسوں سینکڑوں ہیں فسانے بہت ہیں
جنوں نقد داغ جگر مانگتا ہے
یے کہہ دو کہ اب تو خزانے بہت ہیں
بہت کم ہے سچ اس زمانہ میں احساںؔ
یہاں جھوٹ کے کارخانے بہت ہیں
غزل
خفا مت ہو مجھ کو ٹھکانے بہت ہیں
عبدالرحمان احسان دہلوی