خدشے تھے شام ہجر کے صبح خوشی کے ساتھ
تاریکیاں بھی پائی گئیں روشنی کے ساتھ
جاری ہے صبح و شام جفاؤں کا سلسلہ
کتنا ہے ان کو ربط مری زندگی کے ساتھ
اب دیکھنا ہے مجھ کو ترے آستاں کا ظرف
سر کو جھکا رہا ہوں بڑی عاجزی کے ساتھ
زخم جگر کھلا تو تبسم کہا گیا
انصاف ہو سکا نہ چمن میں کلی کے ساتھ
لمحے تو زندگی میں ملے ان گنت مگر
اک لمحہ بھی گزار نہ پائے خوشی کے ساتھ
وقت سحر ہے اٹھو کمر تم بھی باندھ لو
سورج نکل رہا ہے نئی روشنی کے ساتھ
ساقیؔ ہر اک کے بس کا نہیں کار مے کشی
آداب میکشی بھی ہیں کچھ مے کشی کے ساتھ

غزل
خدشے تھے شام ہجر کے صبح خوشی کے ساتھ
اولاد علی رضوی