EN हिंदी
کھڑکھڑاتا ایک پتہ جب گرا اک پیڑ سے | شیح شیری
khaDkhaData ek patta jab gira ek peD se

غزل

کھڑکھڑاتا ایک پتہ جب گرا اک پیڑ سے

سید فضل المتین

;

کھڑکھڑاتا ایک پتہ جب گرا اک پیڑ سے
سوتے گہری نیند پنچھی پھڑپھڑا کر اڑ چلے

جل بجھی یادوں نے جب آنکھوں میں اک انگڑائی لی
ادھ جلے کاغذ پہ پیلے حرف روشن ہو گئے

بین جب بجنے لگی سویا مدن بھی جاگ اٹھا
زہر لہرانے لگا خوابوں میں ہر اک سانپ کے

لمحہ لمحہ ٹوٹ کر بہنے لگی مدت کی نیند
رفتہ رفتہ اک حقیقت خواب جب بننے لگے

لوگ بازی گر بنے بازار میں آئے مگر
کھیل وہ کھیلا کہ خود ہی اک تماشا بن گئے

کچھ نہیں ہیں ہم متینؔ اب یاد رفتہ کے سوا
آج سے پہلے تھے بے شک آدمی ہم کام کے