کھڑی ہے شام کہ خواب سفر رکا ہوا ہے
یقین کیوں نہیں آتا اگر رکا ہوا ہے
گزرنے والے تھے جو بھی گزر گئے لیکن
میان راہ کوئی بے خبر رکا ہوا ہے
برس رہا ہے نہ چھٹتا ہے یہ کئی دن سے
جو ایک ابر مری خاک پر رکا ہوا ہے
رواں بھی سلسلۂ اشک ہے ابھی کچھ کچھ
یہ قافلہ جو کہیں بیشتر رکا ہوا ہے
ابھی نکل نہیں سکتا گھروں سے کوئی یہاں
کہ سیل آب ابھی در بدر رکا ہوا ہے
ہر ایک شے ہے کسی راکھ میں بدلنے کو
کہیں جو خانۂ خس میں شرر رکا ہوا ہے
چلی ہوئی تھی مری بات جتنے زوروں سے
اسی حساب سے اس کا اثر رکا ہوا ہے
پہنچ سکے کسی منزل پہ کیا مسافر دل
کہ چل رہا ہے بظاہر مگر رکا ہوا ہے
یہ حرف و صوت کرشمے ہیں سب اسی کے ظفرؔ
لہو کے ساتھ رگوں میں جو ڈر رکا ہوا ہے
غزل
کھڑی ہے شام کہ خواب سفر رکا ہوا ہے
ظفر اقبال