خبر کیا تھی نہ ملنے کے نئے اسباب کر دے گا
وہ کر کے خواب کا وعدہ مجھے بے خواب کر دے گا
کسی دن دیکھنا وہ آ کے میری کشت ویراں پر
اچٹتی سی نظر ڈالے گا اور شاداب کر دے گا
وہ اپنا حق سمجھ کر بھول جائے گا ہر اک احساں
پھر اس رسم انا کو داخل آداب کر دے گا
نہ کرنا زعم اس کا طرز استدلال ایسا ہے
کہ نقش سنگ کو تحریر موج آب کر دے گا
اسیر اپنے خیالوں کا بنا کر ایک دن محسنؔ
خبر کیا تھی مجھے میرے لیے کمیاب کر دے گا

غزل
خبر کیا تھی نہ ملنے کے نئے اسباب کر دے گا
محسنؔ بھوپالی