خبر کہاں تھی مجھے پہلے اس خزانے کی
غموں نے راہ دکھائی شراب خانے کی
چراغ دل نے کی حسرت جو مسکرانے کی
تو کھلکھلا کے ہنسیں آندھیاں زمانے کی
میں شاعری کا ہنر جانتا نہیں بے شک
عجیب دھن ہے مجھے قافیہ ملانے کی
وجود اپنا مٹایا کسی کی چاہت میں
بس اتنی رام کہانی ہے اس دیوانے کی
وہ گھونسلہ بھی بنا لے گا بعد میں اپنا
ابھی ہے فکر پرندے کو آب و دانے کی
میں اشک بن کے گرا ہوں خود اپنی نظروں سے
کہاں ملے گی جگہ مجھ کو سر چھپانے کی
اناتھ بچوں کی آہیں سوال کرتی ہیں
خدا کو کیا تھی ضرورت جہاں بنانے کی
غزل
خبر کہاں تھی مجھے پہلے اس خزانے کی
دنیش کمار