کھاتے ہیں ہم ہچکولے اس پاگل سنسار کے بیچ
جیسے کوئی ٹوٹی کشتی پھنس جائے منجدھار کے بیچ
ان کے آگے گھنٹوں کی عرض وفا اور کیا پایا
ایک تبسم مبہم سا اقرار اور انکار کے بیچ
دونوں ہی اندھے ہیں مگر اپنے اپنے ڈھب کے ہیں
ہم تو فرق نہ کر پائے کافر اور دیں دار کے بیچ
عشق پہ بو الہوسی کا طعن یہ بھی کوئی بات ہوئی
کوئی غرض تو ہوتی ہے پیار سے ہر ایثار کے بیچ
یوں تو ہمارا دامن بس ایک پھٹا کپڑا ہے مگر
ڈھونڈھو تو پاؤ گے یہاں سو سو دل ہر تار کے بیچ
جیسے کالے کیچڑ میں اک سرخ کمل ہو جلوہ نما
ایسے دکھائی دیتے ہو ہم کو تو اغیار کے بیچ
یہ ہے دیار عشق یہاں کیفؔ خرد سے کام نہ لے
فرق نہیں کر پائے گا مجنوں و ہشیار کے بیچ
غزل
کھاتے ہیں ہم ہچکولے اس پاگل سنسار کے بیچ
سرسوتی سرن کیف