خانوں میں خود ہی بٹ کے اب انسان رہ گیا
دیکھا جب اپنا حشر پریشان رہ گیا
پرکھوں کی شاندار حویلی کا ذکر چھوڑ
آباد کر کھنڈر کو جو ویران رہ گیا
گرد سفر میں پھول سے چہرے اتر گئے
آئینہ ان کو دیکھ کے حیران رہ گیا
دل بھر گیا ہے اپنا مسافت کے شوق میں
منزل ہے دور رستہ بھی سنسان رہ گیا
ہم جاگتے تھے مد مقابل رہے مگر
خاموش انقلاب تھا طوفان رہ گیا
کس نے دیا تھا صلح و صفائی کا مشورہ
بستی میں ہو کے جنگ کا اعلان رہ گیا
قسمت کا ہے زوال کہ محنت کی ہے کمی
ہم نے کیا جو کام بھی نقصان رہ گیا
ہم نے دیا تھا خون بھی اس کے لئے مگر
وہ مر گیا غریب کا احسان رہ گیا
نیرؔ نے سادگی سے گزاری ہے زندگی
مکاریوں سے اپنوں کی انجان رہ گیا
غزل
خانوں میں خود ہی بٹ کے اب انسان رہ گیا
نیر قریشی گنگوہی