EN हिंदी
خاندان قیس کا میں تو سدا سے پیر ہوں | شیح شیری
KHandan-e-qais ka main to sada se pir hun

غزل

خاندان قیس کا میں تو سدا سے پیر ہوں

شاہ نصیر

;

خاندان قیس کا میں تو سدا سے پیر ہوں
سلسلہ جنبان شور خانۂ زنجیر ہوں

خاکساری کے ابھی تو درپئے تدبیر ہوں
کشتہ ہو کر خاک جب ہوں تب کبھی اکسیر ہوں

ضعف نے گو کر دیا ہے جوں کماں گوشہ نشیں
اب بھی چلنے کو جو پوچھو تو سراسر تیر ہوں

رشتۂ الفت نے باندھے ہیں پر پرواز آہ
دام حیرت میں برنگ بلبل تصویر ہوں

تجھ سے یہ عقدہ کھلے گا اے نسیم صبح دم
غنچے کی مانند اس گلشن میں کیوں دلگیر ہوں

منتظر چشم رکاب اے صید افگن ہے ہنوز
بوسۂ فتراک کی خواہش ہے وہ نخچیر ہوں

فقر کی دولت کے آگے سلطنت کیا مال ہے
بسترے پر اپنے اے روبہ مزاجو شیر ہوں

سچ ہے اپنے دم سے قائم ہے یہ بنیاد جہاں
رونق افزائے چمن آرایش تعمیر ہوں

جیسی چاہے ویسی لے مجھ سے قسم قاتل نہ ڈر
حشر کو بھی گر کبھی تیرا میں دامن گیر ہوں

اہل جوہر ہی مرے مضموں کو سمجھے ہے نصیرؔ
میں بھی اقلیم سخن میں صاحب شمشیر ہوں