خانۂ دل کہ معطر بھی بہت لگتا ہے
تیری یادوں سے منور بھی بہت لگتا ہے
گرچہ ہلکا سا دھندلکا ہے تصور بھی ترا
بند آنکھوں کو یہ منظر بھی بہت لگتا ہے
سوچتے ہیں کہ جئیں گے تجھے جی بھر کے مگر
زندگی تجھ سے ہمیں ڈر بھی بہت لگتا ہے
پوچھ ہم سے کہ حقیقت میں ہے کیا تیرا وجود
تیرے شانوں پہ یہ اک سر بھی بہت لگتا ہے
فرق کچھ بھی نہیں احساس تشخص کے سوا
درمیاں اپنے یہ انتر بھی بہت لگتا ہے
ہم قناعت پہ گزر کرتے ہیں عاقبؔ ہم کو
کچی دیواروں کا اک گھر بھی بہت لگتا ہے

غزل
خانۂ دل کہ معطر بھی بہت لگتا ہے
حسنین عاقب