خانہ برباد ہوئے بے در و دیوار رہے
پھر بھی ہم ان کی اطاعت میں گرفتار رہے
ٹھوکریں کھا کے بھی شائستہ مزاجی نہ گئی
فاقہ مستی میں بھی ہم صاحب دستار رہے
اپنی صورت سے ہراساں ہے ہر اک شخص یہاں
کون اس شہر میں اب آئنہ بردار رہے
آتے جاتے ہوئے موسم کو دعا دیتے رہو
کم سے کم شاخ تمنا تو ثمر دار رہے
دستکیں ہوں گی در دل پہ کوئی آئے گا
رات بھر ہم اسی امید میں بیدار رہے
در بہ در پھرتے رہے خانہ بدوشوں کی طرح
زندگی ہم تری تحویل میں بے کار رہے
خاک کیوں اڑنے لگی راہ جنوں میں اخترؔ
رسن و دار کا کوئی تو طلب گار رہے

غزل
خانہ برباد ہوئے بے در و دیوار رہے
سلطان اختر