خامشی ہی خامشی میں داستاں بنتا گیا
میرا ہر آنسو مرے غم کی زباں بنتا گیا
آپ کا غم جب شریک قلب و جاں بنتا گیا
اشک کا ہر قطرہ بحر بیکراں بنتا گیا
ظلم ٹوٹا ہی کیے قائم رہی شان عمل
بجلیاں گرتی رہیں اور آشیاں بنتا گیا
دھیرے دھیرے یاد ان کی دل میں گھر کرتی رہی
رفتہ رفتہ عشق ان کا جزو جاں بنتا گیا
میری ہستی بھی ترے جلووں میں گم ہوتی گئی
تیرا جلوہ بھی فروغ لا مکاں بنتا گیا
رنگ لایا اس قدر ذوق جبین بندگی
ہر نشان سجدہ تیرا آستاں بنتا گیا
جب تک اے جنبشؔ رہے وہ مائل لطف و کرم
ہر نفس اک زندگئ جاوداں بنتا گیا

غزل
خامشی ہی خامشی میں داستاں بنتا گیا
جنبش خیرآبادی