خاموشیوں کے گہرے سمندر میں ڈوب جائیں
کھو جائیں اس طرح کہ پھر اپنا پتہ نہ پائیں
ہے موت کا پیام کناروں کی زندگی
معصوم مچھلیوں سے کہو جال میں نہ آئیں
دشت الم میں برگ خزاں دیدہ کی طرح
بس اے ہجوم شوق کہیں ہم بکھر نہ جائیں
ویرانیاں کہ آنکھوں میں صحرا بسا ہوا
مجبورئ حیات نہ آنسو بھی مسکرائیں
چہرے جھلس رہے ہیں حوادث کی دھوپ میں
پھر بھی الم نصیب ہزاروں میں جگمگائیں
ایسا نہ ہو کہ دل کا ہر اک زخم آنچ دے
کہہ دیجئے شمیمؔ وہ میری غزل نہ گائیں
غزل
خاموشیوں کے گہرے سمندر میں ڈوب جائیں
مختار شمیم