خاموش ہیں لب اور آنکھوں سے آنسو ہیں کہ پیہم بہتے ہیں
ہم سامنے ان کے بیٹھے ہیں اور قصۂ فرقت کہتے ہیں
اب حسن و عشق میں فرق نہیں اب دونوں کی اک حالت ہے
میں ان کو دیکھتا رہتا ہوں وہ مجھ کو دیکھتے رہتے ہیں
ان کی وہ حیا وہ خاموشی اپنی وہ محبت کی نظریں
وہ سننے کو سب کچھ سنتے ہیں ہم کہنے کو سب کچھ کہتے ہیں
اس شوق فراواں کی یا رب آخر کوئی حد بھی ہے کہ نہیں
انکار کریں وہ یا وعدہ ہم راستہ دیکھتے رہتے ہیں
ہمدرد نہیں ہم راز نہیں کس سے کہئے کیوں کر کہئے
جو دل پہ گزرتی رہتی ہے جو جان پہ صدمے سہتے ہیں
آ دیکھ کہ ظالم فرقت میں کیا حال مرا بے حال ہوا
آہوں سے شرارے جھڑتے ہیں آنکھوں سے دریا بہتے ہیں
اکبرؔ شاید دل کھو بیٹھے وہ جلسے وہ احباب نہیں
تنہا خاموش سے پھرتے ہیں ہر وقت اداس سے رہتے ہیں
غزل
خاموش ہیں لب اور آنکھوں سے آنسو ہیں کہ پیہم بہتے ہیں
جلال الدین اکبر