خاموش بھی رہ جائے اور اظہار بھی کر دے
تصویر وہ حاذق ہے جو بیمار بھی کر دے
ہم سے تو نہ ہوگی کبھی اس طرح محبت
جو حد سے گزرنے پہ گنہ گار بھی کر دے
اس بار بھی تاویل شب و روز نئی ہے
ممکن ہے وہ قائل مجھے اس بار بھی کر دے
افلاک تلاشی میں ہوں اس برج کی خاطر
جو میرے خزانے کو فلک پار بھی کر دے
آہنگ تصور سے جو لرزش ہے رگوں میں
اس کو مرے خامے کا سروکار بھی کر دے
وہ بیت جو مسدود میں روزن کا سبب ہیں
ان کو گل آویزۂ دیوار بھی کر دے
قرطاس پہ تفضیلؔ رواں جوئے کلی رنگ
شاید مرے لفظوں کو مزے دار بھی کر دے
غزل
خاموش بھی رہ جائے اور اظہار بھی کر دے
تفضیل احمد