خام ہونے کے انتظار میں ہوں
عام ہونے کے انتظار میں ہوں
میں جسے کام ہی نہیں کوئی
کام ہونے کے انتظار میں ہوں
رکھ کے شیشہ و جام سامنے میں
شام ہونے کے انتظار میں ہوں
اپنی گمنام حسرتوں میں وفاؔ
نام ہونے کے انتظار میں ہوں

غزل
خام ہونے کے انتظار میں ہوں
مقصود وفا