خالی نہیں ہے کوئی یہاں پر عذاب سے
دنیا سے مل کے دیکھ لے اپنے حساب سے
اس دن اندھیری گلیوں میں ہوگا طلوع دن
جس روز دھوپ چھنیو گے تم آفتاب سے
پی لوں ذرا سی آگ تخیل انڈیل کر
کچھ دھوپ چھاننا ہے غزل کے نقاب سے
خوشبو نے تیری رنگ کثافت اڑا دیا
راحت ملی ہوا کو ذرا اس عذاب سے
دل توڑنے کا کھیل نہیں تم پہ ہی تمام
ہم بھی چکائیں گے یہ ادھاری حساب سے
انساں سے دور نو نے مروت بھی چھین لی
بارش نے سر ورق بھی اتارا کتاب سے
دل کا شجر ہرا تھا تو پت جھڑ کا غم نہ تھا
اجڑا ہے دل تو کون بچائے عذاب سے
غزل
خالی نہیں ہے کوئی یہاں پر عذاب سے
فاروق انجم