خاکساروں سے قریں رہتا ہے
آسماں خاک نشیں رہتا ہے
ہے عجب خوئے فقیرانہ بھی
اک جہاں زیر نگیں رہتا ہے
وجہ دنیا بھی ہے فطرت بھی ہے
کوئی خوش کوئی حزیں رہتا ہے
باغ گلگشت صبا دل کو بنا
نخل سر سبز یہیں رہتا ہے
گھر کا ساماں نہیں ویرانے میں
شہر میں خوف مکیں رہتا ہے
آنکھوں آنکھوں میں تو کٹ جاتی ہے رات
درد فرخندہ جبیں رہتا ہے
کج ادا ایسا نہیں ہے وہ بھی
بوجھ اک دل پہ کہیں رہتا ہے
گو کوئی وجہ تعلق بھی نہیں
میں کہیں دھیان کہیں رہتا ہے
غزل
خاکساروں سے قریں رہتا ہے
سید امین اشرف